یہ لہجہ تیرا یہ تیری باتیں کہاں گئیں ہیں ادائیں تیری
بناوٹی تھے یہ وعدے تیرے بناوٹی تھیں وفائیں تیری
عجب ہے حالت فرار کی بھی ملے نہ مجھ کو کوئی بھی صورت
میں لاکھ سوچوں کہ بھول جاؤں مگر یہ یادیں تو آئیں تیری
نہ چھوڑا ہم نے تو یارو رستہ ہوا کا کوئی یوں دل کی جانب
یہ خوشبو تیری کہاں سے آئی کہاں سے آئیں ہوائیں تیری
بھلا دئے تھے مٹا دئے تھے تری یہ قربت کے سارے لمحے
ہیں کیوں یہ لمحے جو زندگی میں یہ یاد مجھ کو دلائیں تیری
ہے وقت یہ بھی گزر گیا ہے جو فرقتیں تھیں جو قربتیں تھیں
یہ ہجر میں اب وہ بھولی یادوں کی بستیاں کیوں بسائیں تیری
یہ تھی ہمایوں کی ایسی قسمت کہ مل نہ پایا کوئی صلہ بھی
محبتیں بھی گزر گئی ہیں یہ نفرتیں بھی تو جائیں تیری
ہمایوں

0
17