اس قافلے میں کوئی سکندر نہیں دیکھا |
ہم خاک لڑیں گے کبھی لشکر نہیں دیکھا |
جو تین سو تیرہ میں تھا جزبہءِ شہادت |
تاریخ میں ایسا کہیں منظر نہیں دیکھا |
دیکھے ہیں بہت شاہ و گداگر یہاں لیکن |
انسان کو انساں کے برابر نہیں دیکھا |
وحشت مجھے آرام سے جینے نہیں دیتی |
رہتا ہوں مکانات میں کہ گھر نہیں دیکھا |
گزری ہے مری عمر تہہِ آب ہی لیکن |
اک عمر سے میں نے تو سمندر نہیں دیکھا |
اب مۓ ہے نہ میخانہ، نہ ہی صحبتِ یاراں |
عرصہ ہوا میں نے کبھی ساغر نہیں دیکھا |
شاہد کوئی یہ بات تو منصور سے پوچھے |
عرصہ سے سرِ دار کوئی سر نہیں دیکھا ! |
معلومات