اس کو پیری میں مریدی کا خیال آیا ہے |
ہاتھ میں کوئی نیا ، لگتا ہے جال آیا ہے |
جس کے چُنگل سے میں نکلا تھا بڑی مشکل سے |
پھانسنے کو مجھے پھر لے کے وہ مال آیا ہے |
جبّہ پو شوں سے نہیں جان چھڑائی جاتی |
تفرقہ ، دل میں اگر نفرتیں پال آیا ہے |
مفتئ دین کو تقویٰ سے غرض کوئی نہیں |
یہ عجب دور ہے کیا قحطِ رجال آیا ہے |
ساری دنیا ہی مصیبت میں گرفتار ہے اب |
بچ کے ہم جائیں کہاں ایسا وبال آیا ہے |
جوش آتے ہوئے دیکھا ہے انہیں پہلے بھی |
پھر سے اب باسی کڑھی میں یہ اُبال آیا ہے |
اس کو آثارِ محبّت نظر آتے ہی نہیں |
ایک ہی ضد ہے کہ بس حکمِ قتال آیا ہے |
جس طرح داؤ لگے اپنی تجوری بھر لو |
ہے کسے فکر یہ کیا مالِ حلال آیا ہے ؟ |
طارق اس کو یہ کہو اپنی ذرا فکر کرے |
وہ گنہ اپنے کسی اور پہ ڈال آیا ہے |
معلومات