یہ بات تو نہیں تھی کہ حُسنِ غزل نہ تھا
تاثیر گر نہیں تھی تو اُس پر عمل نہ تھا
سایہ تو دھوپ میں دیا تھا اس نے دو گھڑی
سر سبز تھا درخت مگر اُس پہ پھل نہ تھا
آیا ہی لوٹ کر جو ہوا جاں بہ لب تو پھر
اُس وقت اس کے مسئلے کا کوئی حل نہ تھا
بھائی بنے جو مادرِ علمی کے سائے میں
تھے اور بھی عزیز پر ان کا بدل نہ تھا
حسرت ہے میں یہ کہہ سکوں جب بھی ملوں اسے
اپنا تو میرے پاس رہا کوئی پل نہ تھا
ظاہرکسی کے قُرب کا اتنا اثر تو ہے
آیا ہے اب نکھار جو چہرے پہ کل نہ تھا
طارق ہمیں بھی انتہا کی جستجو رہی
جب تک ہمارے سامنے حُسنِ ازل نہ تھا

0
42