یہ بات تو نہیں تھی کہ حُسنِ غزل نہ تھا |
تاثیر گر نہیں تھی تو اُس پر عمل نہ تھا |
سایہ تو دھوپ میں دیا تھا اس نے دو گھڑی |
سر سبز تھا درخت مگر اُس پہ پھل نہ تھا |
آیا ہی لوٹ کر جو ہوا جاں بہ لب تو پھر |
اُس وقت اس کے مسئلے کا کوئی حل نہ تھا |
بھائی بنے جو مادرِ علمی کے سائے میں |
تھے اور بھی عزیز پر ان کا بدل نہ تھا |
حسرت ہے میں یہ کہہ سکوں جب بھی ملوں اسے |
اپنا تو میرے پاس رہا کوئی پل نہ تھا |
ظاہرکسی کے قُرب کا اتنا اثر تو ہے |
آیا ہے اب نکھار جو چہرے پہ کل نہ تھا |
طارق ہمیں بھی انتہا کی جستجو رہی |
جب تک ہمارے سامنے حُسنِ ازل نہ تھا |
معلومات