بندہ : |
مولی کرم تو کردے ناداں کی لغزِشوں پر |
آیا ہے شوق و ڈر میں لپٹا یہ تیرے در پر |
ہے سسکیوں سے خالی آہیں زبان اسکی |
سوزِ دروں میں تپتی ہردم ہے جان اسکی |
فریاد کیا میں لاؤں اپنی زبانِ دل میں |
معلوم ہے حقیقت میری ہے آب و گِل میں |
کرنے کو رہ گیا کیا ناکام زندگی میں |
برباد ہوچلا ہوں شیطاں کی بندگی میں |
آنکھوں میں ڈر نہیں ہے یہ دل نڈر نہیں ہے |
بیباک ہوں مگر کے مجھ میں جگر نہیں ہے |
کرتا ہوں روز توبہ لیتا ہوں خود سے وعدہ |
لیکن ہواۓ دل پر کوئی اثر نہیں ہے |
آخر میں آ گیا ہوں تیرے دیار میں اب |
پروردگار عالم رکھیو جوار میں اب |
مولی : |
روزِ ازل کہا تھا شیطاں سے بچ کے رہنا |
عیار ہے وہ دشمن محتاط و چست رہنا |
دشمن کو جو کبھی بھی خاطر میں ہی نہ لاتے |
گرتے ہیں ناک کے بل رسوائی ہی وہ پاتے |
ہاں یاد تھا ذرا بھی وعدہ الست تجھ کو |
پیغامِ حق کا ذرہ احساس بھی تھا تجھ کو |
کچھ پاس رکھ ہی لیتے میری نوائے حق کی |
تشہیر کر ہی دیتے میری صداۓ حق کی |
اچھا تو آگئے ہیں یہ ساتھ کیا لئے ہیں |
کچھ حیف بھی نہیں ہے جو جرم یہ کیے ہیں |
قہّار ہوں میں لیکن مجھ کو خوشی ہوئی ہے |
دستِ دعا سے میری رحمت کئی ہوئی ہے |
ایسا کرو کے رضواں کو دینا یہ پیام |
دروازہ کھول دے یہ احمؔؐد کا ہے غلام |
معلومات