یہ عہد تھا اک دوجے سے شکوہ نہ کریں گے
جیتے رہے اک ساتھ تو اک ساتھ مریں گے
جو بات کسی دوست نے منسوب کی ہم سے
اس بات پہ مِل بیٹھیں گے اقرار کریں گے
عادت ہے زمانے کی صنم روزِ ازل سے
الزام اُٹھائے ہیں تو الزام دھریں گے
پھر بھی تمہیں شک ہے تو چلو اپنی سی کر لو
رُکتے نہ ہوں نالے تو صنم اور چڑھیں گے
ایسا تو نہیں ہے کہ ہمیں شیریں و فرہاد
دَوڑے چلے آئیں گے مطعون کریں گے
جب ختم ہوں بیماری و غربت کے فسانے
پھر عشق و محبّت میں نیا رنگ بھریں گے
کیا کیا نہ سہے ظلم و ستم جبر کی زد میں
جب گننے پہ آئے تو کبھی گِن نہ سکیں گے
اس دورِ تہی دست میں مِل جاؤ مرے ساتھ
ایمان کی انصاف کی آواز بنیں گے

0
62