یہ عہد تھا اک دوجے سے شکوہ نہ کریں گے |
جیتے رہے اک ساتھ تو اک ساتھ مریں گے |
جو بات کسی دوست نے منسوب کی ہم سے |
اس بات پہ مِل بیٹھیں گے اقرار کریں گے |
عادت ہے زمانے کی صنم روزِ ازل سے |
الزام اُٹھائے ہیں تو الزام دھریں گے |
پھر بھی تمہیں شک ہے تو چلو اپنی سی کر لو |
رُکتے نہ ہوں نالے تو صنم اور چڑھیں گے |
ایسا تو نہیں ہے کہ ہمیں شیریں و فرہاد |
دَوڑے چلے آئیں گے مطعون کریں گے |
جب ختم ہوں بیماری و غربت کے فسانے |
پھر عشق و محبّت میں نیا رنگ بھریں گے |
کیا کیا نہ سہے ظلم و ستم جبر کی زد میں |
جب گننے پہ آئے تو کبھی گِن نہ سکیں گے |
اس دورِ تہی دست میں مِل جاؤ مرے ساتھ |
ایمان کی انصاف کی آواز بنیں گے |
معلومات