لب سے الزام جاہتا ہوں
خود کو بدنام چاہتا ہوں
تو میری ساری زندگی لے
میں بس اک شام چاہتا ہوں
اب چھوڑ دیا مے خانہ میں نے
ان آنکھوں کا جام چاہتا ہوں
مجھ سے نہیں ہوتی نوکری اب
در پے ترے کام چاہتا ہوں
بکھر گیا ہوں فراق میں اب
اب کچھ آرام چاہتا ہوں
ساقی آنکھیں تری سلامت
یہ جام مدام چاہتا ہوں
ہائے اس لا کلام سے میں
آغازِ کلام چاہتا ہوں

0
66