غالب ثانی ؔ
دلِ بےتاب کو جینے کی سزا دی جائے
یہ اگر ہنستا ہے رونے کی دعا دی جائے
بے وفائی جو مری ذات کو چھو بھی جاۓ
بحرِ نفرت میں مری راکھ بہا دی جائے
زندگی تھک سا گیا ہوں تجھے پانے میں میںؔ
اب کہ آزردہ دل و جاں کو سُلا دی جائے
حسن جیسا ہے اگر ظرف تمہارا تو کچھ
میری اک طرفہ محبت کو صلا دی جائے
ایک مدت سے ہے بیمار یہ شاعر جاناں
دستِ گلفام سے اب اس کو شفا دی جائے
تم ہو آتش تو مجھے شوقِ تپش ہے لیکن
یہ اگر آگ سے کھیلے تو جلا دی جائے
ہے یہی سچ جو کہ کہتا ہوں میں تم سے لوگوں
گفتگو سچ نہ ہو مجلس سے اُٹھا دی جائے
بزم ثانی ؔ بھی قسم خوب جمے گی اس دن
دو دیوانوں کو جو محفل میں بٹھا دی جائے

1
81
ب