غالب ثانی ؔ |
دلِ بےتاب کو جینے کی سزا دی جائے |
یہ اگر ہنستا ہے رونے کی دعا دی جائے |
بے وفائی جو مری ذات کو چھو بھی جاۓ |
بحرِ نفرت میں مری راکھ بہا دی جائے |
زندگی تھک سا گیا ہوں تجھے پانے میں میںؔ |
اب کہ آزردہ دل و جاں کو سُلا دی جائے |
حسن جیسا ہے اگر ظرف تمہارا تو کچھ |
میری اک طرفہ محبت کو صلا دی جائے |
ایک مدت سے ہے بیمار یہ شاعر جاناں |
دستِ گلفام سے اب اس کو شفا دی جائے |
تم ہو آتش تو مجھے شوقِ تپش ہے لیکن |
یہ اگر آگ سے کھیلے تو جلا دی جائے |
ہے یہی سچ جو کہ کہتا ہوں میں تم سے لوگوں |
گفتگو سچ نہ ہو مجلس سے اُٹھا دی جائے |
بزم ثانی ؔ بھی قسم خوب جمے گی اس دن |
دو دیوانوں کو جو محفل میں بٹھا دی جائے |
معلومات