کس کا حساب پیار میں بے باق ہی رہا
مکتب میں کون شاملِ اسباق ہی رہا
سوچا تھا اپنے ہاتھ سے ہم بھی کریں گے چاک
ہے تار تار دامنِ عشّاق ہی رہا
سپنوں میں یوں تو اس سے ملاقات ہو گئی
دل اس سے پھر وصال کا مشتاق ہی رہا
جب بھی واں جبّہ سائی کی دل شعلہ زن ہوا
پتھر جو اس کے در پہ تھا چقماق ہی رہا
کتنی ہی کہکشاؤں پہ میری نظر گئی
محدود کب نظر میں یہ آفاق ہی رہا
معراج سے جو لوٹا تھی زنجیر ہِل رہی
محوِ سفر تو رات کو برّاق ہی رہا
اس کو نہ اعتبار ہوا میری بات کا
میرا تو سچ بھی جھوٹ کے مصداق ہی رہا
محبوب تھا وہ چور جو لے کر گیا ہے دل
عاشق نظر میں اس کی تو قزّاق ہی رہا
اس نے مرا بھی ذکر کیا تھا کتاب میں
اب تک میں ڈھونڈتا وہی اوراق ہی رہا
بڑھ چڑھ کے ایک دوسرے کا ساتھ جو یہ دیں
شیطاں کا دوستوں سے ہے میثاق ہی رہا
تبدیلیاں وہ لائے ہیں آئین میں مگر
ترمیم کا ہمیں پہ ہے اطلاق ہی رہا
کامل یقیں سے ہم بچے طارق گناہ سے
ایمان بن کے زہر کا تریاق ہی رہا

60