موت کو پروا ہو کیوں کہ زندگی ویران ہے
ہر نئے طوفان کے دامن میں اک طوفان ہے
علم ہو جائے گا جب تاریخ لکھّی جائے گی
حضرتِ انسان کا دشمن بھی خود انسان ہے
آگ کی ہاتھی کی سونے چاندی کی پوجا روا
تیرے بُت خانے کے گوشے گوشے میں بھگوان ہے
پیٹ کی دیوار کے پیچھے ہے جسموں کی ہوس
کوکھ کے پالے ہوئوں کو کوکھ کا ارمان ہے
تیری حق گوئی کا قلب و جان سے ہوں معترف
ہر بنی آدم کے جسم و روح میں شیطان ہے
جانے کتنی منزلوں سے گزرا ہوں جانِ غزل
حیف تیرے در پہ بھی میرے لئے دربان ہے
ایسے ایسے وار کرتی ہے مشیّت کی سِناں
زندگی محسوس ہوتا ہے کبھی تاوان ہے
کیا کہا مجھ سے رقیبوں نے نہ پُوچھو با خدا
خوب واقف ہوں سراسر جھُوٹ ہے بہتان ہے
ختم ہونے کو ہے اس دنیا کا سفرِ امتحاں
جانچ لو اچھّی طرح جھولی میں کیا سامان ہے
ضعفِ پیری ہے امید اور ایلو پیتھک ادویات
بھولتا ہوں رکعتوں میں حافظہ ویران ہے

0
36