سنتے ہیں سرِ شام وہی شوخ نظر ہے
اس ثانیٔ خود سر کو بلا لاؤ کدھر ہے
یہ دل ہے میرا کوئی دھرم شالا نہیں ہے
ہنگامہ کیوں کرتا ہے؟ ترے باپ کا گھر ہے؟
منزل نہ ملی اس میں بھلا اس کی خطا کیا
راہی تو ترا آج تلک گرمِ سفر ہے
انگیز کرے کیسے دو طوفاں کے تھپیڑے
کشتی میں وہ ملاح جو طوفان بسر ہے
اے پیرِ مُغاں سوچ کہیں اب کے برس بھی
ہو جائے وہی حادثہ جس کا مجھے ڈر ہے
پھر گرم ہے افواہ کہ زنجیر ملے گی
آئی ہے بہاراں کوئی اڑتی سی خبر ہے
کیا پھر سے ترے ہاتھ ہوا خونِ تمنا
کہتے ہیں کہ رنگین تری راہ گزر ہے

0
41