کنول کا پھول تھا اک دن |
نکھرنا بھی ضروری تھا |
نکھرنے سے یہ یاد آیا |
نکھر کر پھر مجھے اک دن |
بکھرنا بھی ضروری تھا |
مری تاریک دنیا کا |
تمهی روشن ستارہ تھے |
تمہارے عشق میں کھو کر |
مجھے زرتشتیا ہو کر |
سنورنا بھی ضروری تھا |
یہی دھن تھی مجھے جس نے |
بھلایا وہ جو ہونا تھا |
ابھرنا تو ضروری تھا |
لٹا کر روشنی تم کو |
اترنا بھی ضروری تھا |
میں سمجھا تھا محبت کا صلہ خوشیاں زمانے کی |
محبت جنگ ہے جس کو فقط میں کھیل سمجھا تھا |
محبت جنگ ہے تو جنگ کی قیمت ضروری تھی |
محبت نے ہواؤں میں |
اڑانا بھی ضروری تھا |
اڑا کر پھر مجھے اس نے |
گرانا بھی ضروری تھا |
گرا کر خون ک آنسو |
رلانا بھی ضروری تھا |
محبت کے مسیحا کا |
یہ نظرانہ ضروری تھا |
مجھے اس زندگی کی آج تک کیوں نہ سمجھ آئی |
میں تب جینے سے ڈرتا تھا |
میں اب مرنے سے ڈرتا ہوں |
مگر اب زندگی کی شام میں شاہدؔ یہ سمجھا ہوں |
کہ جینا کیوں ضروری تھا |
اب مرنا کیوں ضروری ہے |
*استاد راحت فتح علی کے گیت "ضروری تھا" کی زمین میں |
معلومات