وہ جو ہو سامنے جذبات بدل جاتے ہیں
گھر کو لوٹیں تو خیالات بدل جاتے ہیں
اک محبّت کا نشہ کر کے تو دیکھو یارو
دیکھنا کیسے یہ دن رات بدل جاتے ہیں
ہم نے دیکھا ہے بدلتے ہوئے لوگوں کو اصول
دیکھ کر سود و زیاں بات بدل جاتے ہیں
ہر طرف مادہ پرستی کا ہے رجحان ہوا
شہر تو شہر ہیں دیہات بدل جاتے ہیں
کیوں کرے ہم پہ بھروسہ کوئی اس ملک میں تو
صرف موسم نہیں اوقات بدل جاتے ہیں
کام کوئی بھی کرو صاف ہو نیّت گر تو
جو عمل بھی ہو مکافات بدل جاتے ہیں
گر یقیں ہو کہ ہے مضبوط بچانے والا
دل میں آتے ہیں جو خدشات بدل جاتے ہیں
وقت کرتا ہے اثر سوچ پہ انساں کی بھی
جو پسند آتے ہیں نغمات بدل جاتے ہیں
وہ بدلتے ہیں جو دل اپنے خدا سے ڈر کے
انہی ابدال کے حالات بدل جاتے ہیں
لیلة القدر جو لائے مہِ رمضاں ہر سال
جن کو مل جاتی ہے یہ رات بدل جاتے ہیں
اس کے احسان ہوئے ہم پہ جو سوچیں طارق
شکر کے سجدوں میں لمحات بدل جاتے ہیں

0
119