سلطانِ دو سریٰ ہی وہ تاجدار ہیں
جن کو خدا سے حاصل سب اختیار ہیں
دنیا کی بادشاہی ان پر نثار ہے
جن کے کرم کے ہم بھی امید وار ہیں
آباد ہیں یہ گلشن ان کے قدم سے ہی
جو جانِ جان بھی ہیں دل کی بہار ہیں
بحرِ زخار میں ہوں ناؤ ہے ڈولتی
لیکن کرم ہے ان کا گو منجدھار ہیں
قبلے کی پشت کب ہے خانہ نبی کی سمت
یہ خلعتیں ہیں ان کی اونچے وقار ہیں
کب تاب رکھتے ہیں دل دلبر کے ہجر کی
ان کے فراق میں ہی یہ بے قرار ہیں
محمود پر تجلی اے حسنِ لم یزل
الطافِ جاں کے یہ بھی امید وار ہیں

42