ہم محبّت کے طلب گار کہے جاتے ہیں
وہ ہمیں کاہے کو اغیار کہے جاتے ہیں
ہم کو کب یارا ہے جلوے کا ، پسِ پردہ ہی
گفتگو ہو ، اسے دیدار کہے جاتے ہیں
ہے جنوں خیز خرَد تجربہ کر کے دیکھا
ہیں الگ اپنے جو افکار کہے جاتے ہیں
ہے طلسم اس کی اداؤں میں سحر نظروں میں
اس کے جادو میں گرفتار کہے جاتے ہیں
عشق نے ایسا مسیحا سے ہے رشتہ جوڑا
ہم شفا پائیں تو بیمار کہے جاتے ہیں
دل کے پیمانے محبّت میں الگ ہیں سب سے
جیت جائیں تو اسے ہار کہے جاتے ہیں
ان کی نظروں میں عداوت کا ہے پردہ ایسا
گھر کے دروازے کو دیوار کہے جاتے ہیں
دشمنوں نے غلط اندازہ لگایا ہو گا
ہم نہیں وہ جو یہ سرکار کہے جاتے ہیں
طارق اب صبر کی ہمّت کو زیادہ کر لو
امتحاں اور ہیں تیار کہے جاتے ہیں

1
94
پسندیدگی کا بہت شکریہ حمید اللہ ماہر صاحب

0