اس کے قدموں کا ، نظر ، کر کے شمار آئی ہے |
آج پھر گلشنِ احمد میں ، بہار آئی ہے |
پھر سے چُومے ہیں قدم ، گلیوں نے ، اُس مہ رُخ کے |
ساتھ اک فوج ، فرشتوں کی ، سوار آئی ہے |
دیکھ کر اس کو ، یہ احساس ہوا ، فرقت بھی |
اس سے ، قربت کے ، تعلّق کو ، نکھار آئی ہے |
کہہ تو پایا نہ کبھی ، اُس سے ، محبّت ہے مجھے |
بات ویسے ، یہ مرے دل میں ، ہزار آئی ہے |
طارق اُس نور کے پیکر نے ، دُعا جب بھی دی |
جا کے وہ میرے مقدّر کو ، سنوار آئی ہے |
معلومات