اس کے قدموں کا ، نظر ، کر کے شمار آئی ہے
آج پھر گلشنِ احمد میں ، بہار آئی ہے
پھر سے چُومے ہیں قدم ، گلیوں نے ، اُس مہ رُخ کے
ساتھ اک فوج ، فرشتوں کی ، سوار آئی ہے
دیکھ کر اس کو ، یہ احساس ہوا ، فرقت بھی
اس سے ، قربت کے ، تعلّق کو ، نکھار آئی ہے
کہہ تو پایا نہ کبھی ، اُس سے ، محبّت ہے مجھے
بات ویسے ، یہ مرے دل میں ، ہزار آئی ہے
طارق اُس نور کے پیکر نے ، دُعا جب بھی دی
جا کے وہ میرے مقدّر کو ، سنوار آئی ہے

0
25