حوصلوں کو بلند رکھتی ہے
میری منزل مری نظر میں ہے
رت جگوں کے عذاب جھیلنے ہیں
میری کشتی ابھی بھنور میں ہے
ناخدا تھوڑا بس دھیان رہے
آج تیزی بڑی لہر میں ہے
رات وہ یاد بے حساب آئے
اب اداسی بھری سحر میں ہے
اس کی خوشبو ہوا میں پھیلی ہے
وہ کہیں آج اس شہر میں ہے
وہ بھی اب دیکھنے سے قاصر ہیں
کچھ کمی ان کی اب نظر میں ہے
دکھ ہوا میں کوئی معلق ہے
دیکھتے ہیں کہ کیا خبر میں ہے
جانے کس جرم کی سزا ہے یہ
اپنی دستار رہگزر میں ہے
ہم کہاں کے ہیں اشرف المخلوقات
اتنی پستی یہاں بشر میں ہے
اب وبا ہی کچھ ایسی پھیلی ہے
ساری دنیا ابھی خطر میں ہے

0
41