محبّت کی عمارت کو نہ یوں مسمار ہونے دو |
مجھے ، جانے سے پہلے ، خواب سے بیدار ہونے دو |
یہ ممکن ہی نہیں پگھلے نہ دل اُس کا مجھے سُن کر |
مرے جذبوں کا اس کے سامنے اظہار ہونے دو |
نظر آئے گا کیسے لوگ اُس پر جاں لُٹاتے ہیں |
بھری محفل میں تم اُس کا ذرا دیدار ہونے دو |
تمہاری ساری شرطیں مان لیں گے ہم محبّت میں |
ہمارے درمیاں لیکن نہ تم دیوار ہونے دو |
ہزاروں ٹھوکریں کھا کر بھی عاشق جس پہ چلتے ہیں |
کہا کس نے یہ تم سے ، راستہ ہموار ہونے دو |
حسد کی آگ میں جلتے ہیں جلنے دو رقیبوں کو |
اُنہیں ہیں میری خوشیاں باعثِ آزار ، ہونے دو |
مرے محبوب کو میری ہی نظروں سے گرانے کی |
جو دشمن کر رہا ہے کوششیں ، بیکار ہونے دو |
وہ جن ہاتھوں کو طارق تھام کر عہدِ وفا باندھا |
انہیں بوسہ بھی دینے کا مجھے حقدار ہونے دو |
معلومات