الطافِ کبریا کی خوشیاں منا رہے ہیں
آمد ہے دلربا کی جو نغمے گا رہے ہیں
خوشیوں کے زریں موتی نکلے جو آنکھ سے ہیں
ان کی ثنا کے نغمے آنسو سنا رہے ہیں
دل چاہے نیند آئے ان کے گلستاں میں بھی
آواز آئے آ جا دلبر بلا رہے ہیں
درماں رکھا دکھوں کا ہے مصطفیٰ کے در پر
اے کاش کہہ سکیں ہم بطحا کو جا رہے ہیں
باراں یہ رحمتوں کے لائی ہے یادِ ان کی
اس میں جو نعمتیں ہیں سب کو بتا رہے ہیں
اے بادِ طیبہ لے تو ہی پیام میرا
پھر آ کے یہ بتانا آقا بلا رہے ہیں
محمود شکر کر تو احسانِ مصطفیٰ کا
ارکان ہر جہاں کے خوشیاں منا رہے ہیں

69