پکڑ کے ہاتھ جو چلنا تھا عمر بھر مجھ کو |
وہ چند دن کی مسافت کے بعد چھوٹ گیا |
تھا ساتھ دینے کا وعدہ ہر ایک موسم میں |
وہ امتحان کی پہلی گھڑی میں ٹوٹ گیا |
بلند و بانگ تھے دعوے کبھی محبت کے |
اب آ کے بھانڈا محبت کا اس کی پھوٹ گیا |
میں گھر کو کیسے بچاتا یہاں پہ غیروں سے |
کہ گھر کا فرد ہی اب اپنے گھر کو لوٹ گیا |
یہ دل تھا نرم مگر لوگ سنگدل تھے یہاں |
یہ بے حسی کی نظر ہو کے آج ٹوٹ گیا |
معلومات