پکڑ کے ہاتھ جو چلنا تھا عمر بھر مجھ کو
وہ چند دن کی مسافت کے بعد چھوٹ گیا
تھا ساتھ دینے کا وعدہ ہر ایک موسم میں
وہ امتحان کی پہلی گھڑی میں ٹوٹ گیا
بلند و بانگ تھے دعوے کبھی محبت کے
اب آ کے بھانڈا محبت کا اس کی پھوٹ گیا
میں گھر کو کیسے بچاتا یہاں پہ غیروں سے
کہ گھر کا فرد ہی اب اپنے گھر کو لوٹ گیا
یہ دل تھا نرم مگر لوگ سنگدل تھے یہاں
یہ بے حسی کی نظر ہو کے آج ٹوٹ گیا

0
53