بجھا دیا گیا اک پل میں آگ جلتے ہی
زمین کھینچ لی اس نے مرے سنبھلتے ہی
مجھے لگا وہ مرے رتجگوں کا ساتھی ہے
چلا گیا مرے گھر سے وہ شام ڈھلتے ہی
وہ زخم زخم مری زندگی میں آیا تھا
وہ مجھ کو چھوڑ گیا برف کے پگھلتے ہی
وہ ایک ہجرتی طائر تھا میں گلی کا شجر
وہ روتا چھوڑ گیا مجھ کو رت بدلتے ہی
مجھے گرفت کا اپنی یقین تھا شاہد
قفس سے اڑ گیا وہ چاند کے نکلتے ہی

62