بجھا دیا گیا اک پل میں آگ جلتے ہی |
زمین کھینچ لی اس نے مرے سنبھلتے ہی |
مجھے لگا وہ مرے رتجگوں کا ساتھی ہے |
چلا گیا مرے گھر سے وہ شام ڈھلتے ہی |
وہ زخم زخم مری زندگی میں آیا تھا |
وہ مجھ کو چھوڑ گیا برف کے پگھلتے ہی |
وہ ایک ہجرتی طائر تھا میں گلی کا شجر |
وہ روتا چھوڑ گیا مجھ کو رت بدلتے ہی |
مجھے گرفت کا اپنی یقین تھا شاہد |
قفس سے اڑ گیا وہ چاند کے نکلتے ہی |
معلومات