مسلسل جڑ کے کڑیوں سے صفت زنجیر پاتا ہے |
مصائب ہی سے انساں صورتِ شمشیر پاتا ہے |
رفیقِ راہ ہوجائے سفر میں نا شناسا جب |
تو راہی ایسے لمحوں میں ہی خود میں ویر پاتا ہے |
امیدِ غیر سے چلتا نہیں ہے کاروانِ زیست |
بھروسہ جب خودی پر ہو خرد تدبیر پاتا ہے |
بچھڑ جاتا ہے اپنوں سے جو یہ خورشیدِ عالم تاب |
اسی کے سوزِ فرقت سے جہاں تنویر پاتا ہے |
ہراک سے دل لگی بہتر نہیں ہے اے دلِ ناداں |
یہ عالم ہے مسافر گاہ کئی رہگیر پاتا ہے |
مسافر جب سفر میں ہو سدا ہوشیار رہتا ہے |
زمیں پر ہو سماں پر ہو صفت طیار رہتا ہے |
مسافر اب سمجھ بھی جا یہ ہے زنجیرِ عالمگیر |
سفر جیسا فنا ہونا یہی عالم کی ہے تقدیر |
"۔ "۔ "۔ |
سہارنپور سے دیوبند |
معلومات