مسلسل جڑ کے کڑیوں سے صفت زنجیر پاتا ہے
مصائب ہی سے انساں صورتِ شمشیر پاتا ہے
رفیقِ راہ ہوجائے سفر میں نا شناسا جب
تو راہی ایسے لمحوں میں ہی خود میں ویر پاتا ہے
امیدِ غیر سے چلتا نہیں ہے کاروانِ زیست
بھروسہ جب خودی پر ہو خرد تدبیر پاتا ہے
بچھڑ جاتا ہے اپنوں سے جو یہ خورشیدِ عالم تاب
اسی کے سوزِ فرقت سے جہاں تنویر پاتا ہے
ہراک سے دل لگی بہتر نہیں ہے اے دلِ ناداں
یہ عالم ہے مسافر گاہ کئی رہگیر پاتا ہے
مسافر جب سفر میں ہو سدا ہوشیار رہتا ہے
زمیں پر ہو سماں پر ہو صفت طیار رہتا ہے
مسافر اب سمجھ بھی جا یہ ہے زنجیرِ عالمگیر
سفر جیسا فنا ہونا یہی عالم کی ہے تقدیر
"۔ "۔ "۔
سہارنپور سے دیوبند

1
82
سفر سہارنپور