نقش جب بھی ترا ابھارا ہے
خواب نے خواب کو سنوارا ہے
تیری چاہت تری وفاؤں کا
قرض ہم نے کہاں اتارا ہے
میرے جیون کا آسماں ہے تو
میری قسمت کا تو ستارا ہے
میری ناؤ کی تو ہی منزل ہے
میرے دریا کا تو کنارا ہے
چل پڑیں گے اویس جی ہم بھی
بادباں کا اگر اشارہ ہے

64