کہاں جنوں پہ خرد کا کچھ اختیار چلے |
مگر سیانے وہی تھے جو دل کو وار چلے |
پڑی ہے جب سے نظر اک حسین کی ہم پر |
نگاہِ چشمِ ِفسوں ساز کا خُمار چلے |
خبر ملی ہے انہیں بھی ہمارے ملنے کی |
رقیب ، کوچۂ یاراں سے ، دل فِگار چلے |
پہنچ سکے ہیں جو منزل پہ تھے یہی دو چار |
اگرچہ گھر سے مسافر کئی ہزار چلے |
کہیں صدائے انا الحق سنائی دی پھر سے |
وہ لے کے پھر کوئی منصورسوئے دار چلے |
ہزار بار فدا تُجھ پہ جان کر دیں گے |
لٹیں گے ہم بھی کہ جب تک تِرا شُمار چلے |
ہماری آخری سانسیں بھی ہیں تری خاطر |
رہے گا خم ، سرِ تسلیم ، تیغِ یار چلے |
سنا ہے ہجر میں دل ڈوب ڈوب جاتا ہے |
ہمارا دل بھی کبھی ہو کے بے قرار چلے |
نہیں گلہ اسے طارق تمہارے گرنے کا |
اسے خوشی ہے گرے اُٹھ کے بار بار چلے |
معلومات