کہاں جنوں پہ خرد کا کچھ اختیار چلے
مگر سیانے وہی تھے جو دل کو وار چلے
پڑی ہے جب سے نظر اک حسین کی ہم پر
نگاہِ چشمِ ِفسوں ساز کا خُمار چلے
خبر ملی ہے انہیں بھی ہمارے ملنے کی
رقیب ، کوچۂ یاراں سے ، دل فِگار چلے
پہنچ سکے ہیں جو منزل پہ تھے یہی دو چار
اگرچہ گھر سے مسافر کئی ہزار چلے
کہیں صدائے انا الحق سنائی دی پھر سے
وہ لے کے پھر کوئی منصورسوئے دار چلے
ہزار بار فدا تُجھ پہ جان کر دیں گے
لٹیں گے ہم بھی کہ جب تک تِرا شُمار چلے
ہماری آخری سانسیں بھی ہیں تری خاطر
رہے گا خم ، سرِ تسلیم ، تیغِ یار چلے
سنا ہے ہجر میں دل ڈوب ڈوب جاتا ہے
ہمارا دل بھی کبھی ہو کے بے قرار چلے
نہیں گلہ اسے طارق تمہارے گرنے کا
اسے خوشی ہے گرے اُٹھ کے بار بار چلے

0
14
216
جناب آپ اچھا کہہ رہے ہیں بعض مصروعوں میں بہتری کی ضرورت ہے
ملی ہے جب سے نظر اس حسین سے اب تک
یہ مصرعہ تعقیدِ لفظی کا شکار ہے - یعنی "اب تک" کا تعلق نظر ملنے سے ہے یا اس حسین سے ہے یہ بات واضح نہیں ہوتی۔
پہنچ سکے بڑی مشکل سے ہو کے وہ دو چار
یہاں بھی وہی تعقیدِ لفظی ہے مشکل سے دو چار ہو کے یا دو چار لوگ؟

کہاں کسی کو وہ لے کر ہیں سوئے دار چل
کہاں کا لفظ یہاں بات ادا نہیں کرتا - کہاں کا اس طرح مطلب ہوتا بھلا کیسے

ہزار بار فدا تُجھ پہ جان کر دیں گے
چلیں گے ہم بھی جہاں تک تِرا شمار چلے

یہ شعر بہت اچھا ہے اگر اس میں " چلیں گے" کی جگہ کچھ اور کر لیں تو مزید بہتر ہو جاۓ گا

اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ

0
تبصرے کا بہت شکریہ جناب ارشد راشد صاحب!
مجھے خوشی ہوئی آپ نے اس غزل کو دیکھا۔ مقصد تو بہتری ہی ہوتا ہے ۔ بہت ممنون ہوں ۔اللہ آپ کو جزا دے
آپ کی ہدایات کے مطابق کچھ تبدیلیاں کی ہیں امیدہے مزید مشورے سے نوازیں گے

0
جناب نوازش کہ آپ نے مجھ ناچیز کی راے کو در خورِ اعتنا سمجھا
ملی تھی ایک نظر اک حسین سے ، اب تک
نگاہِ چشمِ سحر خیز کا خُمار چلے
اب تک کا تعلق دوسرے مصرعے سے ہے تو یہاں مری راے میں یہ نہیں جچتا
اسے یوں کر سکتے ہیں
ملی تھی جب سے نظر اک حسین سے ، تب سے
نگاہِ چشمِ سحر خیز کا خُمار چلے

پہنچ سکے بڑی مشکل سے چند منزل تک
اگرچہ گھر سے مسافر کئی ہزار چل

آپ کے پہلے والے شعر میں دو چار اور پھر ہزار اس شعر کا حسن تھا مرے خیال میں اسے دوچار کے ساتھ ہی لکھیں مگر اس طرح کہ تعقید لفظی نہ آۓ


کہیں صدائے انا الحق سنائی دی پھر سے
کہیں کسی کو وہ پھر لے کے سوئے دار چلے

میری ذاتی راۓ میں دونوں مصرعوں کا آغاز "کہیں سے" نہیں جچ رہا - اسے اگر یوں کریں تو
مجھے صدائے انا الحق سنائی دی پھر سے
کہیں کسی کو وہ پھر لے کے سوئے دار چلے

یہ شعر بھی پہلے زیادہ اچھا تھا
ہزار بار فدا تُجھ پہ جان کر دیں گے
چلیں گے ہم بھی جہاں تک تِرا شمار چلے

اس میں ہزار بار اور شمار سے صفتِ تعداد پیدا ہو رہی ہے۔ اسے نہ نکالیں
بس یہ چلیں گے ہم بھی صحیح نہیں لگتا۔

کہاں چلیں گے؟

ایک تجویز
لٹیں گے ہم بھی کہ جب تک ترا شمار چلے

اتنا کافی ہے :)

بہت شکریہ جناب ارشد راشد صاحب آپ نے اتنا وقت دیا بہت ممنون ہوں
دوبارہ دیکھتا ہوں جزاک اللہ خیرا

0
ایک اور بات عرض کر دوں ۔ جتنے بھی افعال ہوتے ہیں انہیں ایک ساتھ ہی لکھنا چاہیۓ جیسے چلے ہے کرے ہے
جاتا ہے آتا ہے وغیرہ۔ انہیں ہے چلے یا ہے کرے کرنا کلام کی ناپختگی سمجھا جاتا ہے
تو اپنے پہلے مصرعے میں بھی ایک تبدیلی کرلیں
کہاں جنوں پہ خرد کا ہے اختیار چلے
--------------------------------
کہاں جنوں پہ خرد کا کچھ اختیار چلے

0
کا کچھ میں عیب تنافر نہیں ہو گا؟

0
سبحان اللہ بلکل ہو گا مگر عیبِ تنافر ایک زاتی پسند نا پسند کا معاملہ ہے یہ آپ کو غالب کے ہاں بھی ملے گا
"کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں" دیکھیے تین کاف ایک ساتھ۔
مرے نزدیک یہ بہتر ہے فعل کو توڑ کے لکھنے سے کیوں کہ وہ ایک مسلمہ عیب ہے۔
مگر سر آپ پھر خود ہی نیئ صورت نکالیۓ جس میں یہ دونوں نہ ہوں۔

0
بہت شکریہ جناب

0
سر آپ کا مصرعہ تو بہت خوبصورت تھا آپ نے اسکہ پورا ہی بلا دیا
خرد جنوں کہے ، دل پر نہ اختیار چلے
یہ تو کچھ اور ہی ہو گیا - اس سے تو سب سے پہلے والا ہی اچھا تھا

کہاں جنوں پہ خرد کا ہے اختیار چلے
یا
کہاں جنوں پہ خرد کا ہی اختیار چلے

سر لگتا ہے میں آپ کو پریشان کر رہا ہوں - معذرت خواہ ہوں اب چپ ہو جاتا ہوں

0
نہیں ایسی کوئی بات نہیں سیکھنے کے لئے تو یہی طریقہ ہے کہ طبع آزمائی کی جائے

0
جناب غزل بہت اچھی ہو گئ مبارک ہو۔
اب یہ بالکل کسی آزمودہ کار شاعر کا کلام لگ رہا ہے -

0
بہت شکریہ جناب میرے استادوں میں اضافہ ہو گیا ہے اس سے پہلے تو زیادہ ترعروض ہی سے سیکھا ہے جزاک اللہ خیراً

0
حضرت ! کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا
میں کوئ استاد وغیرہ نہیں ہوں - کچھ میں آپ سے زیادہ جانتا ہونگا تو کچھ آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہوں گے
دونوں برابر -

0
انکساری بذاتِ خود اعلیٰ مقام کی علامت ہے اللہ آپ کو خوش رکھے جزاک اللہ

0