مقصود اِس سفر کا کنارا نہیں رہا |
ساتھ اُس کا چھوڑ دیں یہ گوارا نہیں رہا |
ہم اتنی دور آگئے اپنی تلاش میں |
اب خود سے بھاگنے کا تو یارا نہیں رہا |
سوچا تھا زندگی سے محبّت کریں گے ہم |
ہاتھوں میں پھر یہ وقت کا دھارا نہیں رہا |
لگتا ہے کر گئی ہے اثر اس کی اک نظر |
اب جان و دل ہمارا ہمارا نہیں رہا |
سب موسموں میں خوشبو چمن میں بسی رہی |
پتّوں کا گو خزاں میں سہارا نہیں رہا |
ہم اس کی انجمن میں ملیں جا کے خود اسے |
اِس کے سوا تو اب کوئی چارا نہیں رہا |
ایسا کیا علاج مسیحا نے مرَ ض کا |
بے چین کوئی درد کا مارا نہیں رہا |
سورج سے نور پا کے وہ ظاہر ہوا قمر |
جب کوئی بھی چمکتا ستارہ نہیں رہا |
ہاتھوں میں ہاتھ دے کہ جو طارق تُو چل پڑا |
کب تیرے ساتھ وہ ترا پیارا نہیں رہا |
معلومات