کہنے کی سچ یہاں پہ اجازت نہیں مجھے
"کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے"
شکوہ نہیں کہ اس کی توجّہ نہ پا سکا
اس سے تو ذرّہ بھر بھی شکایت نہیں مجھے
مدّت ہوئی گناہوں سے توبہ کئے ہوئے
شاید اسی لئے کوئی حسرت نہیں مجھے
سجدہ حضورِ قلب سے کرنا نصیب ہو
کچھ اور تو جزا کی ضرورت نہیں مجھے
ہے کون میرا تیرے سوا ، بخش دے گنہ!
اتنا بھی اُس سے کہنے کی ہمّت نہیں مجھے
کہنا جو چاہوں کہہ نہ سکوں کام ہے کٹھن
کچھ اپنے حق میں کہنے کی طاقت نہیں مجھے
اس کے لئے فدا ہو مرا مال و جاں اگر
کوئی بھی اور کرنا تجارت نہیں مجھے
بدلے میں نیکیوں کے رضا اس کی ہو نصیب
اس سے عزیز تر کوئی جنَّت نہیں مجھے
اس کے حضور جھک گئے تو کیا نہ پا لیا
طارق بتاؤ کب ملی ، عزّت نہیں مجھے

0
114