سسکتی ہوئی ایک شامِ غریباں
یہ پوچھے ہے مجھ سے کہ مایوس ہو تم؟
ہزاروں خوشی منتظر ہیں تمہاری
ستمگر کے غم میں کہ محبوس ہو تم ؟
چمن میں حسیں تتلیاں اور بھی ہے
اسی جاں گسل سے کہ مانوس ہو تم؟
تمہیں کیا پتہ کس قدر قیمتی ہو
کہ ناموسِ الفت کے ناموس ہو تم
ابھی عشق کے عین سے تم نہ واقف
بھلے درد کے گہرے قاموس ہو تم
چراغِ محبت کو بجھنے نہ دینا
ہو روحِ رواں تم ہی فانوس ہو تم
ہو ویرانئ گلشنِ آشنائی؟
ہو وجہِ اداسی کہ منحوس ہو تم

1
81
ارشد صاحب اگر اس میں بھی کچھ خامیاں ہوں تو از راہ کرم رہنمائی فرمائیں