کچھ اس برس بھی چلن اور تھا ہواؤں کا |
تماشہ دیکھتے گزری ہے پھر بلاؤں کا |
تمام سال کیا انتظار ختم ہو اب |
مگر نہ بند ہوا سلسلہ وباؤں کا |
گزر رہے ہیں اسی آسرے میں روز و شب |
کبھی تو ختم سفر ہو گا یہ سزاؤں کا |
کئی محاذوں پہ لڑنا پڑا ہے اب ہم کو |
پرانا ہم سے تعلّق رہا جفاؤں کا |
سمجھ تو آئے کسی کو پیام ہے اس میں |
کوئی سبب تو ہے آخر ان ابتلاؤں کا |
قصور ہوتا ہے بندوں کا جب عذاب آئے |
وگرنہ شوق نہیں اس کو ان دواؤں کا |
اسی سے مانگا ہے اب تک اسی سے مانگیں گے |
نتیجہ اچھا ملے گا ہمیں وفاؤں کا |
گریں جو سجدے میں اُٹھیں وہ جب معاف کرے |
کہ اتنا حوصلہ دیکھا تو ہے گداؤں کا |
وہ آئے دینے پہ تو بے حساب دیتا ہے |
حساب کب رکھا ہم نے بھی ہے عطاؤں کا |
کھلے گا جلد ہی رحمت کا باب پھر طارق |
کہ ہو گا اتنا اثر تو سبھی دعاؤں کا |
معلومات