نہیں بے سبب یہ غضب ہوا ،کہ عذاب اس کا نصیب تھا
یہ لگی کسی کی ہے بد دُعا ، جو خدا کا بندہ منیب تھا
وہی ڈوبنے سے بچا گیا ، لئے ہاتھ میں جو چلا عصا
سنی ہو گی تم نے بھی داستاں ، وہ خدا کا ایک حبیب تھا
ہوا کیا عجب مرا رازداں مرا بن گیا ہے رقیب اب
کیا حسنِ یار کا تذکرہ ، تو وہ میرے سب سے قریب تھا
کبھی اس سے پہلے ہوا نہیں کہ وہ دیکھ کر نہ دے مسکرا
مجھے یوں لگا مرے ساتھ اُس کا سلوک آج عجیب تھا
ہے سوال یہ کہ عزیز کیوں ہو مجھے جو میرا ہوا نہیں
مرا یار ہے جو مرا رہا ، کہیں دور تھا یا قریب تھا
مری اس سے ملنے کی آرزو ، بنی جب دعاؤں میں التجا
مجھے مل گیا تو یقیں ہوا ، کہ مرا بھی ایک مجیب تھا
رہی فکر یہ کہ نہ جانے کیوں وہ بنا ملے ہی چلا گیا
مجھے طارق اس سے غرض نہیں ، وہ امیر تھا کہ غریب تھا

0
44