کل جہاں لوگوں کو میری ہر کہی سستی لگی
اب اسی بستی میں میرے نام کی تختی لگی
زندگی سبکو ہے پیاری الجھنوں کے باوجود
ڈوبنے والوں کو بپھری موج بھی کشتی لگی
بھوک کی شدّت سے بیچارہ مسافر گِر پڑا
دیکھنے والوں کو اسکی اور ہی مستی لگی
کوٹھیوں میں کام کرنے پر اسے طعنِ عبث
مجھکو اے پیرِ حرم تیری نظر بھٹکی لگی
معذرت لیکن مجھے کچھ کہنا ہے عالی وقار
شہر کے والی کی اک اک بات میں پستی لگی
اُلٹی پیدائش ہوئی تو عقل بھی الٹی ملی
نیستی تھی خواجہ صاحب آپکو ہستی لگی

0
36