یہ داستانِ عشق ہی ناکامیوں کی تھی
ہر موڑ پر نئی نئی طغیانیوں کی تھی
آوارہ گردیوں میں گزاری ہے زندگی
گہری لکیر ہاتھ میں گمنامیوں کی تھی
جو بات روح میں تھی وہ اندر سے کھا گئی
کیسے کہوں کہ بات وہ بدنامیوں کی تھی

56