درد سے بوجھل دلِ پکھراج ہے
درد ہی تو عاشقی کا داج ہے
میں کہیں بھی ایک پل رکتا نہیں
سر پہ اب خانہ بدوشی تاج ہے
دکھ کی بارش روح میں تھمتی نہیں
عشق کرنے کا یہی تو باج ہے
قیس کا ہوں ہمسفر میں آج کل
آج رکھنی سر پھروں کی لاج ہے
عشق میں ہو کامیابی ، عشق کیا !
کیسے کہہ دوں عشق کی معراج ہے
کھو دیا سب کچھ جو پایا تھا یہاں
شاہدؔ اب تو خود کا بھی محتاج ہے

0
114