نہ ہم سے پوچھا کسی نے ، نہ کچھ حساب ہوا
کسی کے پیچھے چلے یوں نہ احتساب ہوا
تمہیں نکال کے لائے تھے جو خرابوں سے
عتاب ان پہ ہوا اور وہ شتاب ہوا
دل و دماغ میں یہ جنگ اب بھی جاری ہے
کہ خیر و شر میں بھلا ، کس کا انتخاب ہوا
وہ چھو ڑ چھاڑ کے سب کچھ یہاں چلے آئے
ہمیشہ ایسا مؤثّر ترا خطاب ہوا
بہانے ڈھونڈتے تھے ، جو نہ کام کرنے کے
انہیں نہ جان لُٹانے پہ ، اضطراب ہوا
ہمیں خبر ہے کہ ہے زندگی بس اتنی دیر
برستے پانیوں میں جیسے اک حباب ہوا
پہنچ نہ پائے جو منزل پہ ، جاگتے ہی رہے
جو سو گئے تو ادھورا ہمارا خواب ہوا
ہماری ہاں یا نہیں سے بڑھے گی بات اس سے
ملیں گے اس سے ، ہمارا بھی گر شباب ہوا
نظر اسی کی پڑی ہے ، وہ مل گیا طارقؔ
اسی کا ساتھ ملا ہے تو کامیاب ہوا

0
134