ازل سے جھوٹ تو سچائیوں سے ڈرتا رہا
میں ہر بُرائی کی *انگنائیوں سے ڈرتا رہا
غرور پیدا نہ کر دیں یہ نیک ہونے کا
کبھی کبھی تو میں اچھائیوں سے ڈرتا رہا
میں سچ کی دھوپ میں بچپن سے ہی بٹھایا گیا
تبھی تو جھوٹ کی پرچھائیوں سے ڈرتا رہا
ازالہ کر نہ سکیں جو مری جُدائی کا
میں خود ہی ایسی شناسائیوں سے ڈرتا رہا
جو میری ذات کو مجھ سے کبھی جُدا کر دیں
تمام ایسی پذیرائیوں سے ڈرتا رہا
سوال آئے جو دل میں بتا نہ پایا کبھی
جو اپنی سوچ کی گہرائیوں سے ڈرتا رہا
سنا تو دیتا کلام اپنا تیری محفل میں
سُخن شناس میں ، شیدائیوں سے ڈرتا رہا
مجھے خیال تھا تُجھ پر نہ کوئی حرف آئے
وگرنہ کون تھا ، رسوائیوں سے ڈرتا رہا
قریب ہو کے تجھے دیکھنے کا شوق تو تھا
میں تیرے حسن کی رعنائیوں سے ڈرتا رہا
ترے سوا نہ جہاں میں کسی سے عشق کیا
وفا شعار تھا ، ہرجائیوں سے ڈرتا رہا
کہیں علاج کی صورت بھی پیدا ہو جاتی
مریض خود ہی مسیحائیوں سے ڈرتا رہا
میں یوں تو دل کی عدالت میں پیش ہو جاتا
خِرَد کی دی گئی دانائیوں سے ڈرتا رہا
کہیں نہ مشورہ دیں سچ کو چھوڑ جانے کا
میں رہبروں ہی کی بینائیوں سے ڈرتا رہا
وہ میرے ساتھ ہے طارق تو ڈر نہیں لگتا
وگرنہ بھیڑ میں ، تنہائیوں سے ڈرتا رہا

0
51