ہوشُ حواس سے مرے شدتِ وصل ہی گئی۔۔ |
زیست کی شاموں میں تری یاد سمیٹ لی گئی۔۔ |
خواب و خیال سے مرے قرب و وصال سے مرے۔۔ |
اے مری جاں تُو جو گئی وجہ قرار بھی گئی۔۔ |
خوب پرستشِ بدن اور تھا عجب خمار وہ۔۔ |
ناف پیالے سے ترے جب وہ شراب پی گئی۔۔ |
صحنِ شبِ فراق میں رقص کناں ہوں جانِ جاں۔۔ |
شب ہے اداس کتنی اور مجھ کو اداسی پی گئی۔۔ |
دیکھا جو مے کدے میں تو چیخ اٹھے تھے شیخ جی۔۔ |
پھر سرِ شب کہ خوب ان سے تُو تُو میں میں کی گئی۔۔ |
تابہ کمر وہ کاکلیں جو تھیں سیاہ اس قدر۔۔ |
پر تری زیرِ سایہ زلف وہ شبِ وصلبی گئی۔۔ |
تجھ کو یہ علم ہی کہاں بعد بھی تیرے جانِ جاں۔۔ |
بزمِ زناں میں جو یہاں شعروں پہ داد لی گئی۔۔ |
شورِ بے پردگی ہے ہر شہر میں اے خدا کہ اب۔۔ |
شہرِ جدید سے مرے لذتِ عاشقی گئی۔۔ |
معلومات