فقط وہ شاہزادہ تو نہیں ہے
یہی اس کا افادہ تو نہیں ہے
سمجھ کر چل رہا ہے ساری چالیں
شہنشہ ہے ، پیادہ تو نہیں ہے
بدل لیتا ہوں ، رستہ جب یہ جانوں
کہ یہ دلبر کا جادہ تو نہیں ہے
کوئی اُس کے علاوہ اس میں آئے
یہ دل اتنا کشادہ تو نہیں ہے
نہیں آتی محبّت اس کو کرنا
مگر دل اتنا سادہ تو نہیں ہے
ہوا ہے عشق ، لیکن اس کا ملنا
کہیں مشکل زیادہ تو نہیں ہے
کیا تھا اس نے ملنے کا تو وعدہ
کہیں بدلا ، ارادہ تو نہیں ہے
یقیں اس کو دلایا ہے وفا کا
کیا ہم نے بھی وعدہ تو نہیں ہے
شرافت کا کہیں شیطاں نے پہنا
نیا کوئی لبادہ تو نہیں ہے
بہت نرمی سے اس نے بات کی ہے
شرارت کا ارادہ تو نہیں ہے
بلا کا ہے نشہ ، اُس میں بھی طارقؔ
خُمار آنکھوں کا ، بادہ تو نہیں ہے

0
17