کیوں دلِ مضطر کی ہوتی بیقراری کم نہیں
عمر بھر یوں تو ہوئی حاجت براری کم نہیں
دیکھ کر اس کو مجھے اکثر خیال آتا ہے یہ
جو عطا اُس کو ہوئی ہے شہر یاری کم نہیں
خشک موسم تھا رہا گرچہ خزاں کا سامنا
اِس چمن کی اُس نے کی پر آبیاری کم نہیں
دوربیں اس کی نظر ہے اس کا دھیما ہے مزاج
دل میں اس کے مشکلوں میں بردباری کم نہیں
اس نے آ کر کر دیئے آزاد سوچوں کے طیور
جو اسیروں کی ہوئی ہے رستگاری کم نہیں
مُوردِ الزام ٹھہرائے گئے معصوم لوگ
ان پہ پھر ناحق ہوئی جو سنگباری کم نہیں
پوچھتے ہو کیا ہوا ہے اب وطن میرے کا حال
فوج تو ہو یا نہ ہو پر فوجداری کم نہیں
طارق اچھا ہی ہوا تم آ گئے باہَر میاں
دیس میں رہتے تو ہوتی شرمساری کم نہیں

3
80
بہت خوب

0
پسندیدگی کا شکریہ جناب عاصم گلزار صاحب!

0
پسندیدگی کا شکریہ شاہ رئیس شمالی صاحب!

0