کیوں دلِ مضطر کی ہوتی بیقراری کم نہیں |
عمر بھر یوں تو ہوئی حاجت براری کم نہیں |
دیکھ کر اس کو مجھے اکثر خیال آتا ہے یہ |
جو عطا اُس کو ہوئی ہے شہر یاری کم نہیں |
خشک موسم تھا رہا گرچہ خزاں کا سامنا |
اِس چمن کی اُس نے کی پر آبیاری کم نہیں |
دوربیں اس کی نظر ہے اس کا دھیما ہے مزاج |
دل میں اس کے مشکلوں میں بردباری کم نہیں |
اس نے آ کر کر دیئے آزاد سوچوں کے طیور |
جو اسیروں کی ہوئی ہے رستگاری کم نہیں |
مُوردِ الزام ٹھہرائے گئے معصوم لوگ |
ان پہ پھر ناحق ہوئی جو سنگباری کم نہیں |
پوچھتے ہو کیا ہوا ہے اب وطن میرے کا حال |
فوج تو ہو یا نہ ہو پر فوجداری کم نہیں |
طارق اچھا ہی ہوا تم آ گئے باہَر میاں |
دیس میں رہتے تو ہوتی شرمساری کم نہیں |
معلومات