جب سے زندہ رہنے کا میں نے ارادہ کر لیا
بجلیوں نے مجھ پہ گرنے کا اعادہ کر لیا
جو نہ دشمن کر سکے وہ دوستوں نے کر دیا
دشمنوں نے دوستوں سے استفادہ کر لیا
میں نے اپنی زات کی گہرائیوں میں ڈوب کر
آگہی کی روشنی سے دل کشادہ کر لیا
جو بھی کچھ تھا پاس سب نیلام میں نے کر دیا
زندگی کو اپنی میں نے پھر سے سادہ کر لیا
سخت تپتی دھوپ سے بچنے کا پھر یہ حل کیا
سر پہ اس کی یاد کا میں نے لبادہ کر لیا
دوستوں سے مل کے شاہد جام و بادہ کر لیا
میرا جتنا غم تھا اس کو پھر سے آدھا کر لیا

0
85