جب سے زندہ رہنے کا میں نے ارادہ کر لیا |
بجلیوں نے مجھ پہ گرنے کا اعادہ کر لیا |
جو نہ دشمن کر سکے وہ دوستوں نے کر دیا |
دشمنوں نے دوستوں سے استفادہ کر لیا |
میں نے اپنی زات کی گہرائیوں میں ڈوب کر |
آگہی کی روشنی سے دل کشادہ کر لیا |
جو بھی کچھ تھا پاس سب نیلام میں نے کر دیا |
زندگی کو اپنی میں نے پھر سے سادہ کر لیا |
سخت تپتی دھوپ سے بچنے کا پھر یہ حل کیا |
سر پہ اس کی یاد کا میں نے لبادہ کر لیا |
دوستوں سے مل کے شاہد جام و بادہ کر لیا |
میرا جتنا غم تھا اس کو پھر سے آدھا کر لیا |
معلومات