عشق ہر چاہنے والے کا تو ناکام نہیں
ہم محبّت میں ہوئے یونہی تو بدنام نہیں
ہم غمِ دہر سے آزاد ہوئے ہیں جب سے
اب غمِ جاں، غمِ محبوب سے آرام نہیں
اب کے سیلاب کا کچھ اور سبب لگتا ہے
یہ مصیبت ہے کوئی گردشِ ایّام نہیں
تم جو کرتے ہو طواف اس کا کبھی بوسہ لے کر
خانہ کعبہ ہے یہ عاشق کا در و بام نہیں
روٹھتا ہے وہ مگرآج تلک یہ نہ ہوا
ہم منانے کو گئے ہوں ، وہ ہوا رام نہیں
وہ دعا سنتا ہے اب بھی وہ ہمارا ہے خدا
کیا سمیع اور مجیب اس کے حسیں نام نہیں
تم جو جاتے ہو چمن کو تو نظر میں رکھنا
کہیں صیّاد نے پھیلایا وہاں دام نہیں
طار ق اٹھو تو نظر تم کو بھی آ جائے وہ
بام پررات کو آتا ہےسرِ شام نہیں

0
48