کہیں بزرگ جو باتیں ، سنبھالتے رہنا
عمل کے سانچے میں پھر ان کو ڈھالتے رہنا
یہ آفتاب ہمیں کہہ گیا تھا جاتے ہوئے
کہ چاند رات میں گھر کو اجالتے رہنا
کمند ڈال کے تحقیق کی فصیلوں پر
جہانِ تازہ کو حیرت میں ڈالتے رہنا
نہ آئے دھڑکنوں میں دل کی سست رفتاری
رگوں میں جوش کی لہریں اچھالتے رہنا
زمین اپنی پہ محنت کرو تو دیکھو گے
کہ اس کا کام ہے سونا اُگالتے رہنا
جواب دینا اسے جو تمہیں سوال کرے
کوئی جو چاہے جھگڑنا تو ٹالتے رہنا
یہ جان کر بھی کہ ہوتا ہے لادوا یہ مرَض
یہ روگِ عشق ، ہمیشہ ہی پالتے رہنا
ملے جو تحفہ کرو شکر سے قبول اس کو
نہ اس میں نقص کوئی تم نکالتے رہنا
صلیب چڑھتے مسیحا بھی ہیں یہاں طارق
رواج ہے یونہی ، الزام ڈالتے رہنا

0
44