وہ جو مجرم تھے کہاں موردِ الزام ہوئے |
ہم ترے کوچے میں آ کر یونہی بدنام ہوئے |
پھینک کر تیر نگاہوں کا تو صیّاد گئے |
ہم جگر سوختہ بسمل یوں لبِ بام ہوئے |
نور کو تیرگی کب تک نہ اترنے دے گی |
روز آ جاتی ہے گھر پر جو مرے شام ہوئے |
ہو کے مانوس قفس سے ، جو پرندے نہ اڑے |
ہو کے آزاد کئی ، پھر سے تہہِ دام ہوئے |
صبر سے میں نے پچھاڑے ہیں کئی دشمنِ جاں |
حوصلہ دیکھ کے میرا ، سبھی ناکام ہوئے |
جب سے خود اس نے پلائی ہے محبّت کی شراب |
جلوہ حسنِ ازل ، صبح و مسا جام ہوئے |
طارق آ جائیں گے واپس وہ سبھی اڑ کے طیور |
پاس رہ کے جو ، محبّت سے تری رام ہوئے |
معلومات