مطمئن دل ہوا سا لگتا ہے
اُس کا کچھ تذکرہ سا لگتا ہے
آئی اس کی گلی سے ہو کے صبا
گھر معطّر ہوا سا لگتا ہے
کیسی طاری غنودگی ہے یہ
خواب کا تجربہ سا لگتا ہے
اس نے سپنوں میں آنا ہو شاید
در کا پردہ ہِلا سا لگتا ہے
ہے یدُاللہ ، ان کے ہاتھوں پر
ہاتھ اس کا ، خدا سا لگتا ہے
دیکھ کر اس کو ہم ہوئے مدہوش
نشّہ ایسا چڑھا سا لگتا ہے
اُس کو دیکھا ہے ساری دنیا نے
سب کا وہ رہنما سا لگتا ہے
ہم تو قائل تھے پہلے ہی طارق
اب عدو بھی جھکا سا لگتا ہے

0
27