یوں تو نہیں کہ تُجھ سے محبّت نہ کر سکے |
ہاں تیرا حق تھا جو وہ عبادت نہ کر سکے |
دنیا کے پیچھے بھاگ کے دیکھا بہت مگر |
اس زندگی کو باعثِ راحت نہ کر سکے |
اتنی عنایتیں ہوئی ہیں تُجھ سے بار بار |
دو چار حسرتوں کی شکایت نہ کر سکے |
مانا نہیں ہے یاد کیا تُجھ کو ہر گھڑی |
پر تُجھ سے دور رہنے کی عادت نہ کر سکے |
منزل کا راستہ جو تھا دشوار اس قدر |
ناکامیوں کو دیکھ کے حیرت نہ کر سکے |
کیا فائدہ جو نعمتیں دنیا کی تو ملیں |
حاصل تری رضا ہی کی جنّت نہ کر سکے |
طارق کا اس قدر ہے تری ذات پر یقیں |
کوئی اسے ہلانے کی جراَت نہ کر سکے |
معلومات