عیاں ہونے نہیں دیتے وہ دل میں درد رکھتے ہیں
وہ کتراتے ہیں ملنے سے کہ چہرہ زرد رکھتے ہیں
ہمیں ان سے گلہ شکوہ نہیں ہوتا مگر پھر بھی
مزاج اپنا ، ہو رنجش بھی اگر ، ہم سرد رکھتے ہیں
زبوں حالی میں رہ کر خود ، کسی کا حال کیا پوچھیں
بہت سے دل مگر پھر بھی ہمارا درد رکھتے ہیں
بہاروں میں شجر سارے ہی سبزہ اوڑھ لیتے ہیں
خزاں میں گرچہ تھوڑی دیر پتے زرد رکھتے ہیں
حیا عورت کا زیور ہے پہن کر گھر سے جب نکلے
نگاہیں پھر جُھکا کر اپنی ، کتنے مرد رکھتے ہیں
جُدائی میں ہماری یاد ان کو آ رہی ہوگی
اکیلے ہوں اگر تو رابطہ سب فرد رکھتے ہیں
خدا کی راہ میں چلتے ہوئے ہم پر جو پڑتی ہے
سر آنکھوں پر ہم اس کے راستے کی گرد رکھتے ہیں
کہیں طارق تمہارے دل میں بھی کوئی شکایت ہو
وہ تم سے دور رہ کر بھی تمہارا درد رکھتے ہیں

0
57