دربارِ مصطفیٰ میں جلوے چمک رہے ہیں
خوشبو سے اس حرم کی دل جاں مہک رہے ہیں
نمناک ہیں سب آنکھیں اس جا اے میرے مولا
جزبات کا طلاطم آنسو ٹپک رہے ہیں
سر مست ہیں ہوائیں رحمت کے اس نگر میں
ہر آن بخششوں کے غنچے چٹک رہے ہیں
قلزم میں عشقِ جاں کے مداح غوطہ زن ہیں
نورِ نبی سے ان کے چہرے دمک رہے ہیں
یہ جو غلام ان کے جالی کے رو برو ہیں
جلوے حسین اُن کے جیسے وہ تک رہے ہیں
بٹتے ہیں جام اس جا اُن کی عنایتوں کے
یہ بُور اب پیالے لگتا چھلک رہے ہیں
محمود دیکھ تو بھی اب رحمتوں کے جلوے
شاید یہ پردے رُخ سے ہولے سرک رہے ہیں

59