اب میں احباب میں خاموش گنا جاتا ہوں |
میرے ساتھی جو نہیں تنہا رہا جاتا ہوں |
اپنے بچوں میں مجھے ماضی نظر آتا ہے |
دیکھ کر ان کو میں بچپن میں چلا جاتا ہوں |
صبحِ نو کی مجھے امّید جواں رکھتی ہے |
اس طرح خود کو تسلّی تو دلا جاتا ہوں |
رات کے پچھلے پہر وہ بھی چلا آتا ہے |
بات جلدی سے اسے دل کی بتا جاتا ہوں |
مے یہ جتنی بھی پیوں تشنہ لبی اور بڑھے |
بے خودی وہ ہے کہ میں حد سے بڑھا جاتا ہوں |
اب تری منزلِ مقصود تو کچھ دُور نہیں |
اس کی جانب سے یہ امّید دیا جاتا ہوں |
طارق اعمال مرے اس سے نہیں پوشیدہ |
اس کی ست تاری کے پردے میں چھپا جاتا ہوں |
معلومات