اب میں احباب میں خاموش گنا جاتا ہوں
میرے ساتھی جو نہیں تنہا رہا جاتا ہوں
اپنے بچوں میں مجھے ماضی نظر آتا ہے
دیکھ کر ان کو میں بچپن میں چلا جاتا ہوں
صبحِ نو کی مجھے امّید جواں رکھتی ہے
اس طرح خود کو تسلّی تو دلا جاتا ہوں
رات کے پچھلے پہر وہ بھی چلا آتا ہے
بات جلدی سے اسے دل کی بتا جاتا ہوں
مے یہ جتنی بھی پیوں تشنہ لبی اور بڑھے
بے خودی وہ ہے کہ میں حد سے بڑھا جاتا ہوں
اب تری منزلِ مقصود تو کچھ دُور نہیں
اس کی جانب سے یہ امّید دیا جاتا ہوں
طارق اعمال مرے اس سے نہیں پوشیدہ
اس کی ست تاری کے پردے میں چھپا جاتا ہوں

0
66