مسرور جب سے ہو گیا محبوب دوستو
ہم پر کرم خدا کا ہوا خوب دوستو
دیکھا ہے اس نے مست نگاہوں سے ایک بار
ہم تو اسی سے ہو گئے مضروب دوستو
پھرتے ہیں اس گلی میں جو دیوانہ وار ہم
کہتے ہیں لوگ ہو گئے مجذوب دوستو
جب سے ہوا ہے آ کے وہ آباد شہر میں
کوچے یہاں سبھی ہوئے مرغوب دوستو
کتنے ہی لوگ لے گئے حسرت دلوں میں یہ
ہم اس سے کیوں نہ ہو گئے منسوب دوستو
دُنیا کو اس نے پیار کا ایسا سبق دیا
دُشمن بھی اس سے ہو گئے مرعوب دوستو
ساقی لُٹائے علم اور معرفت کے جام
پی کر تو دیکھو ، یہ کبھی مشروب دوستو
ظلمت رہی ہے بر سرِ پیکار ، نور سے
کیوں صبحِ نو سے ہو گئے ، محجُوب دوستو
وہ خود ہی فیصلہ کریں ، خود ہی جرح کریں
کوئی ہمارا بھی تو ہو ، مندوب دوستو
لکھی گئی ہے فتح ہمارے نصیب میں
ہو کر رہے گا ، جو ہوا ، مکتوب ، دوستو
تم بھی بڑھا کے ہاتھ ، وہی ہاتھ تھام لو
گر ہے وصالِ یار ہی مطلوب ، دوستو
طارق سکھا دیا اسی نے گفتگو کا ڈھنگ
اعلیٰ سُخن کا ہو گیا اُسلوب دوستو

0
17