اب امانت میں خیانت نہیں کی جا سکتی
ہو فراست تو حماقت نہیں کی جا سکتی
مجھ کو بھیجا ہے یہاں کوئی تو مقصد ہو گا
زندگی یوں تو ودیعت نہیں کی جا سکتی
ہر کوئی اپنے عمل کا ہے اگر ذمہّ دار
بن تعلّق تو شفاعت نہیں کی جا سکتی
دیکھ کر بوجھ یہ ڈالا گیا اُن کندھوں پر
ورنہ یونہی تو رسالت نہیں کی جا سکتی
کچھ ہمیں بھی تو وہ تیّاری کا موقع دے گا
یوں اچانک تو قیامت نہیں کی جا سکتی
نفع ہو گا یا زیاں کس نے یہ سوچا ہے ابھی
اس محبّت میں تجارت نہیں کی جا سکتی
پیش کرنے کو اگر کچھ بھی مرے پاس نہیں
پھر ندامت میں زیارت نہیں کی جا سکتی
جو محبّت کی علامت کے لئے رکھی ہو
اُس عبادت میں رعایت نہیں کی جا سکتی
ہے محبّت کی تپش گرمئِ جذبات کے ساتھ
اس تمازت میں ریاضت نہیں کی جا سکتی
کون آئے گا وکالت کی اجازت لے کر
واں صداقت کی شکایت نہیں کی جا سکتی
طارق اب اپنی ارادت میں جسارت نہ کرو
نظر انداز عدالت نہیں کی جا سکتی

0
67