جب خزاں آئے تو پتے بھی بتا دیتے ہیں
بوجھ بن جاؤ تو اپنے بھی گرا دیتے ہیں
شدّتِ دھوپ سے رکھتے ہیں بچا کر یوں تو
آگ لگ جائے تو پتّے بھی ہوا دیتے ہیں
گر نہ ایندھن ملے ، مہماں کی ضیافت کے لئے
گھر کا سامان بھی کچھ لوگ جلا دیتے ہیں
اور ہوں گے جو تری راہ میں حائل ہوں گے
ہم تو ہر ایک کو آنے کی صدا دیتے ہیں
ہم کسی اور کے ہو جائیں یہ سوچا ہی نہیں
جانے کیوں لوگ محبّت کی سزا دیتے ہیں
زندگی ایک امانت ہے ، خیانت کیسی
چلو ہر پل تری مرضی سے بِتا دیتے ہیں
اشک سے خالی ہے گر آنکھ تو غم کیسا ہے
ابر بوجھل ہوں تو وہ دریا بہا دیتے ہیں
طارق اب اور نہیں کوئی مداوا دل کا
اب مرے زخم مرا سینہ سجا دیتے ہیں

0
97