اسے ڈھونڈتا رہا عمر بھر
رہا وہ بھی میری تلاش میں
کبھی موڑ پہلے وہ مڑ گیا
میں بھٹک گیا کبھی راہ میں
جہاں ہونا چاہیے تھا ہمیں
کبھی وہ نہ تھا کبھی میں نہیں
سرِ شام اب ہم ملے کہ یوں
کہ جیسے ملتے ہیں اجنبی
مجھے دیکھ کر اسے یوں لگا
کہ یہ شخص تو کوئی اور ہے
وہ بھی دھول میں تھا اٹا ہوا
اسے دیکھ کر مجھے یوں لگا
یہ نہیں جوازِ سفر مرا
مجھے دیکھ کر وہ گزر گیا
اسے دیکھ کر میں گزر گیا

107